اندھیری دنیا میں کرکٹ کا اجالا
سری لنکا میں ون ڈے سیریز شروع ہونے سے قبل کمار سنگاکارا کی نیوز کانفرنس میں دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ایک لڑکی کو صحافیوں کی نشست پر بیٹھا دیکھ کر ایک لمحے کے لیے یہ خیال آیا کہ شاید یہ کوئی پرستار ہیں جو سوال جواب کے بعد سنگاکارا کے ساتھ تصویر بنانے یا آٹوگراف لینے کی فرمائش کریں گی۔
لیکن انہوں نے نیوز کانفرنس کے دوران جب سری لنکن کپتان سے سوال کیا تو سنگاکارا نے اس لڑکی کا نام لے کر جواب دیا تو یہ بات مجھ سمیت کئی لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔پتہ چلا کہ یہ لڑکی پاکستان سے آئی ہوئی ایک فری لانس جرنلسٹ سنعیہ زیدی ہے۔
اس پہلی پریس کانفرنس کے بعد دمبولا میں کھیلے گئے ون ڈے سیریز کے تینوں میچوں میں یہ روز کا معمول تھا کہ سنعیہ زیدی اپنے بھائی بلال کی مدد سے سٹیڈیم کی انتہائی بلندی پر واقع پریس باکس میں آتیں، میچ دیکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود وہ کمنٹری سن کر تمام معلومات نوٹ کرتی رہتیں۔ان کے پاس اپنے کام کے لیے لیپ ٹاپ بھی رہتا اور جب میچ کے بعد دونوں ٹیموں کی پریس کانفرنس ہوتیں تو سنعیہ کی طرف سے بھی سوالات سننے کو ملتے۔
سنعیہ کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ گزشتہ تین سال سے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی لیکچرار ہیں۔
سنعیہ کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ گزشتہ تین سال سے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی لیکچرار ہیں۔ ان کے والد کاروبار کرتے ہیں جبکہ دو بھائی اور ایک بہن ہے۔ ایک بھائی ان کے ساتھ سری لنکا آئے ہوئے ہیں جبکہ سب سے چھوٹے بھائی کی بھی ایک حادثے میں بینائی چلی گئی لیکن اپنی ہمت سے اس نے بھی کووینٹری کی یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔
سنعیہ کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی میں گلوکوما کی بیماری موجود تھی جس کی وجہ سے وہ پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہیں۔ گھروالوں نے علاج کرایا لیکن دو سال کی عمر ہی میں ان کے بارے میں ڈاکٹرز نے بتادیا تھا کہ وہ کبھی بھی نہیں دیکھ سکیں گی لیکن اس کے باوجود انہوں نے نہ صرف تعلیم مکمل کی بلکہ فزیکل ایجوکیشن کے عملی امتحانات میں بھی حصہ لیا۔
سنعیہ کہتی ہیں کہ کرکٹ سے شوق اس وقت ہوا جب ان کے والد انگلینڈ سے ایک کرکٹ پچ لے کر آئے جس میں تمام فیلڈ پوزیشنز پر ماڈلز کھڑے تھے جس کی مدد سے انہیں اس کھیل کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھنے کا موقع ملا جس کے بعد وہ باقاعدہ کرکٹ رپورٹنگ میں آئیں۔
سری لنکن کرکٹرز سنعیہ زیدی کواچھی طرح پہچانتے ہیں
سنعیہ کا کہنا ہے کہ جب دو ہزار چار میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تو انہوں نے سنتھ جے سوریا کا انٹرویو کیا۔اس انٹرویو کا پس منظر بھی خاصا دلچسپ ہے کہ اس روز دنیا بھر میں بینائی سے محروم افراد کا عالمی دن جس کی علامت سفید چھڑی ہے منایا جارہا تھا۔ سنعیہ کو سخت سکیورٹی کے باوجود سری لنکن ٹیم تک رسائی کا موقع ملا تھا جس نے سنعیہ کو خاص تحفہ بھی دیا تھا اس روز کے بعد سے تمام ہی سری لنکن کرکٹرز سنعیہ کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔
سنعیہ کا کہنا ہے کہ جے سوریا کے بعد انہوں نے سچن تندولکر، برائن لارا، ژاک کالس اور جونٹی رہوڈز سمیت کئی مشہور کھلاڑیوں کے انٹرویوز کیے تاہم سب سے زیادہ لطف مرلی دھرن سے بات کرنے میں آیا ہے جبکہ پاکستانی کرکٹرز میں وہ محمد یوسف کی معترف ہیں۔
انٹرویوز اور دوسری چیزیں کس طرح مرتب کرتی ہیں؟ اس پر سنعیہ کا کہنا تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر کمنٹری سن کر ضروری باتیں نوٹ کرتی رہتی ہیں جبکہ ٹیپ ریکارڈر پر انٹرویوز ریکارڈ کرنے کے بعد اپنے بھائی کی مدد سے انہیں لفظوں کا روپ دیتی ہیں۔
جے سوریا کے علاوہ سچن تندولکر، برائن لارا، ژاک کالس اور جونٹی رہوڈز سمیت کئی مشہور کھلاڑیوں کے انٹرویوز کیے تاہم سب سے زیادہ لطف مرلی دھرن سے بات کرنے میں آیا ہے جبکہ پاکستانی کرکٹرز میں محمد یوسف کی معترف ہیں
سنعیہ
ان کے لیپ ٹاپ میں ایک سافٹ ویئر موجود ہے جو 'جوز' کہلاتا ہے۔ جوز کمپیوٹر سکرین پر لکھی عبارت کو پڑھ کر سناتا ہے اسی کی مدد سے وہ تمام انٹرویوز مرتب کرتی ہیں۔ سنعیہ کہتی ہیں کہ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ پاکستان سے باہر کرکٹ کی کوریج کریں اور یہ خواہش سری لنکا کے اس دورے میں پوری ہوگئی۔
تینوں ون ڈے میچوں کے دوران کئی بار ایسا بھی ہوا کہ سنعیہ بھائی کی مدد سے پریس باکس کی خاموشی سے نکل کر باہر عام سٹینڈز میں جاکر بیٹھ جاتیں اور میچ نہ دیکھ کر بھی اسے بھرپور انداز میں محسوس کرتیں ان کے اردگرد بیٹھے شائقین کے لیے ان کی موجودگی حیرت کا باعث ہوتی لیکن شاید وہ بھی بڑی جلدی اس بات کو سمجھ جاتے کہ بظاہر اس اندھیری دنیا میں یہ کرکٹ ہی اس کی روشنی ہے۔
سری لنکا میں ون ڈے سیریز شروع ہونے سے قبل کمار سنگاکارا کی نیوز کانفرنس میں دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ایک لڑکی کو صحافیوں کی نشست پر بیٹھا دیکھ کر ایک لمحے کے لیے یہ خیال آیا کہ شاید یہ کوئی پرستار ہیں جو سوال جواب کے بعد سنگاکارا کے ساتھ تصویر بنانے یا آٹوگراف لینے کی فرمائش کریں گی۔
لیکن انہوں نے نیوز کانفرنس کے دوران جب سری لنکن کپتان سے سوال کیا تو سنگاکارا نے اس لڑکی کا نام لے کر جواب دیا تو یہ بات مجھ سمیت کئی لوگوں کے لیے حیران کن تھی۔پتہ چلا کہ یہ لڑکی پاکستان سے آئی ہوئی ایک فری لانس جرنلسٹ سنعیہ زیدی ہے۔
اس پہلی پریس کانفرنس کے بعد دمبولا میں کھیلے گئے ون ڈے سیریز کے تینوں میچوں میں یہ روز کا معمول تھا کہ سنعیہ زیدی اپنے بھائی بلال کی مدد سے سٹیڈیم کی انتہائی بلندی پر واقع پریس باکس میں آتیں، میچ دیکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود وہ کمنٹری سن کر تمام معلومات نوٹ کرتی رہتیں۔ان کے پاس اپنے کام کے لیے لیپ ٹاپ بھی رہتا اور جب میچ کے بعد دونوں ٹیموں کی پریس کانفرنس ہوتیں تو سنعیہ کی طرف سے بھی سوالات سننے کو ملتے۔
سنعیہ کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ گزشتہ تین سال سے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی لیکچرار ہیں۔
سنعیہ کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ گزشتہ تین سال سے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی لیکچرار ہیں۔ ان کے والد کاروبار کرتے ہیں جبکہ دو بھائی اور ایک بہن ہے۔ ایک بھائی ان کے ساتھ سری لنکا آئے ہوئے ہیں جبکہ سب سے چھوٹے بھائی کی بھی ایک حادثے میں بینائی چلی گئی لیکن اپنی ہمت سے اس نے بھی کووینٹری کی یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔
سنعیہ کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی میں گلوکوما کی بیماری موجود تھی جس کی وجہ سے وہ پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہیں۔ گھروالوں نے علاج کرایا لیکن دو سال کی عمر ہی میں ان کے بارے میں ڈاکٹرز نے بتادیا تھا کہ وہ کبھی بھی نہیں دیکھ سکیں گی لیکن اس کے باوجود انہوں نے نہ صرف تعلیم مکمل کی بلکہ فزیکل ایجوکیشن کے عملی امتحانات میں بھی حصہ لیا۔
سنعیہ کہتی ہیں کہ کرکٹ سے شوق اس وقت ہوا جب ان کے والد انگلینڈ سے ایک کرکٹ پچ لے کر آئے جس میں تمام فیلڈ پوزیشنز پر ماڈلز کھڑے تھے جس کی مدد سے انہیں اس کھیل کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھنے کا موقع ملا جس کے بعد وہ باقاعدہ کرکٹ رپورٹنگ میں آئیں۔
سری لنکن کرکٹرز سنعیہ زیدی کواچھی طرح پہچانتے ہیں
سنعیہ کا کہنا ہے کہ جب دو ہزار چار میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان آئی تو انہوں نے سنتھ جے سوریا کا انٹرویو کیا۔اس انٹرویو کا پس منظر بھی خاصا دلچسپ ہے کہ اس روز دنیا بھر میں بینائی سے محروم افراد کا عالمی دن جس کی علامت سفید چھڑی ہے منایا جارہا تھا۔ سنعیہ کو سخت سکیورٹی کے باوجود سری لنکن ٹیم تک رسائی کا موقع ملا تھا جس نے سنعیہ کو خاص تحفہ بھی دیا تھا اس روز کے بعد سے تمام ہی سری لنکن کرکٹرز سنعیہ کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔
سنعیہ کا کہنا ہے کہ جے سوریا کے بعد انہوں نے سچن تندولکر، برائن لارا، ژاک کالس اور جونٹی رہوڈز سمیت کئی مشہور کھلاڑیوں کے انٹرویوز کیے تاہم سب سے زیادہ لطف مرلی دھرن سے بات کرنے میں آیا ہے جبکہ پاکستانی کرکٹرز میں وہ محمد یوسف کی معترف ہیں۔
انٹرویوز اور دوسری چیزیں کس طرح مرتب کرتی ہیں؟ اس پر سنعیہ کا کہنا تھا کہ وہ ریڈیو اور ٹی وی پر کمنٹری سن کر ضروری باتیں نوٹ کرتی رہتی ہیں جبکہ ٹیپ ریکارڈر پر انٹرویوز ریکارڈ کرنے کے بعد اپنے بھائی کی مدد سے انہیں لفظوں کا روپ دیتی ہیں۔
جے سوریا کے علاوہ سچن تندولکر، برائن لارا، ژاک کالس اور جونٹی رہوڈز سمیت کئی مشہور کھلاڑیوں کے انٹرویوز کیے تاہم سب سے زیادہ لطف مرلی دھرن سے بات کرنے میں آیا ہے جبکہ پاکستانی کرکٹرز میں محمد یوسف کی معترف ہیں
سنعیہ
ان کے لیپ ٹاپ میں ایک سافٹ ویئر موجود ہے جو 'جوز' کہلاتا ہے۔ جوز کمپیوٹر سکرین پر لکھی عبارت کو پڑھ کر سناتا ہے اسی کی مدد سے وہ تمام انٹرویوز مرتب کرتی ہیں۔ سنعیہ کہتی ہیں کہ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ پاکستان سے باہر کرکٹ کی کوریج کریں اور یہ خواہش سری لنکا کے اس دورے میں پوری ہوگئی۔
تینوں ون ڈے میچوں کے دوران کئی بار ایسا بھی ہوا کہ سنعیہ بھائی کی مدد سے پریس باکس کی خاموشی سے نکل کر باہر عام سٹینڈز میں جاکر بیٹھ جاتیں اور میچ نہ دیکھ کر بھی اسے بھرپور انداز میں محسوس کرتیں ان کے اردگرد بیٹھے شائقین کے لیے ان کی موجودگی حیرت کا باعث ہوتی لیکن شاید وہ بھی بڑی جلدی اس بات کو سمجھ جاتے کہ بظاہر اس اندھیری دنیا میں یہ کرکٹ ہی اس کی روشنی ہے۔
No comments:
Post a Comment